اسلام آباد (انصار عباسی) نیب کے شکایت تصدیق سیل (کمپلینٹ ویری فکیشن سیل) کے طلبی کے نوٹس سے لے کر جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری تک بیورو کے لاہور آفس کی جانب سے جس انداز سے اس کیس کو آگے بڑھایا گیا ہے وہ غیر معمولی اور مشکوک ہے۔ ذیل میں ان حالات و واقعات کا احاطہ کیا جا رہا ہے جنہیں دیکھ کر نیب کے رویے پر سنگین سوالات پیدا ہو جاتے ہیں:… 1۔ 28؍ فروری کو نیب لاہور کے شکایت تصدیق سیل کی ڈپٹی ڈائریکٹر کو آرڈینیشن بینش نعمان نے میر شکیل الرحمان کو ڈپٹی ڈائریکٹر شکایت تصدیق سیل نرمل حسنی کے روبرو پیش ہونے کیلئے کال اپ نوٹس جاری کیا۔ نوٹس میں لکھا تھا کہ بیورو میں شکایت کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ 2۔ اس نوٹس کے ساتھ کوئی سوالنامہ منسلک نہیں تھا۔ 3۔ 5؍ مارچ کو نوٹس کے مطابق میر شکیل الرحمان نیب آفس میں پیش ہوئے اور نیب حکام کو دو صفحات پر مشتمل وضاحت پیش کی۔ تاہم، نیب حکام نے اسے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ 4۔ نیب حکام نے اُن سے بیورو کو موصول ہونے والی شکایت کے متعلق سوالات کیے۔ میر شکیل نے
حکام کو بتایا کہ یہ 34؍ برس پرانا معاملہ ہے لہٰذا ایک ہفتے کا وقت دیا جائے تاکہ پرانے ریکارڈ کو دیکھ کر بتایا جا سکے۔ انہوں نے حکام کو بتایا کہ وہ تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دوبارہ پیش ہوں گے۔ 5۔ میر شکیل نے اُن سے تحریری سوالنامہ فراہم کرنے کو کہا تاہم نیب حکام نے تحریری طور پر کوئی بھی سوال دینے سے انکار کر دیا۔ 6۔ بعد ازاں، میر شکیل نے درخواست کی کہ کم از کم انہیں سوالات لکھنے کی اجازت دی جائے۔ پہلے تو انہوں نے یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب، میر شکیل نے وہاں نصؓب سی سی ٹی وی کیمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ ریکارڈ ہو رہا ہے کہ نیب والے زبانی سوالات کیلئے بھی انکار کر رہے ہیں، تو انہوں نے درخواست قبول کر لی۔ 7۔ یہی وہ وقت تھا جب نیب والوں نے 13؍ سوالات بتائے جو میر شکیل الرحمان نے کاغذ پر لکھے۔ 8۔ میر شکیل نے تمام دستاویزات جمع کرنے، ان کا جائزہ لینے اور اس کے بعد اُن 13؍ سوالات کا جواب لکھنے میں ایک ہفتہ لگایا اور ساتھ ہی دستاویزی ثبوت بھی جمع کیے۔ 9۔ نیب آفس میں دوبارہ پیشی سے ایک رات قبل، بیورو سے کسی نے پہلی مرتبہ میر شکیل کی رہائش گاہ پر 26؍ سوالات پہنچائے۔ یہ عجیب تھا۔ انہوں نے نیب والوں کی جانب سے لکھوائے گئے 13؍ سوالوں کا جواب لکھ لیا تھا لیکن پیشی سے ایک رات قبل نیب والوں نے ان کے گھر پر 26؍ سوالات پر مشتمل سوالنامہ بھجوا دیا۔ وہ نیب جس نے انہیں سوالنامہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا، اب اگلے دن ان کی پیشی اور 26؍ سوالوں کا جواب چاہتا تھا۔ شکایت کی تصدیق کے مرحلے میں اس جلد بازی کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔ 10۔ اس طرح 12؍ مارچ کو میر شکیل الرحمان نیب لاہور کے دفتر پیش ہوئے اور ان کے پاس صرف 13؍ سوالوں کے جوابات تھے، یہ وہی سوالات تھے جو نیب والوں نے انہیں لکھوائے تھے۔ ان جوابات کے ساتھ، جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف اپنے ہمراہ تمام دستاویزی ثبوت بھی لے گئے۔ 11۔ نیب لاہور کے دفتر میں پیش ہونے کے 20؍ منٹ بعد اے آر وائی نے خبر نشر کرنا شروع کر دی کہ نیب والوں نے میر شکیل الرحمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ 12۔ اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ نیب والوں نے میر شکیل الرحمان کے جوابات کا کب جائزہ لیا اور کب چیئرمین نیب نے ان کی گرفتاری کے وارنٹس پر دستخط کیے تھے۔ عمومی طور پر وارنٹس اس انکوائری یا انوسٹی گیشن کے آخری مراحل کے موقع پر جاری کیا جاتا ہے، اور میر شکیل الرحمان کے معاملے میں کیس اس نہج پر پہنچا ہی نہیں تھا۔ میر شکیل نیب کے ساتھ شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر بھی تعاون کر رہے تھے، اور زیادہ تر کیسز میں ملزمان کو طلب بھی نہیں کیا جاتا۔ 13۔ ان حالات کو دیکھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ چیئرمین نیب نے میر شکیل الرحمان کی نیب لاہور دفتر میں پیشی سے قبل ہی وارنٹس پر دستخط کر دیے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب چیئرمین نے پہلے ہی میر شکیل کو اپنی معصومیت ثابت کرنے کیلئے مناسب موقع دینے سے قبل ہی گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ قانون کے مطابق، نیب کے پاس اس وقت تک کسی کو بھی گرفتار کرنے کا اختیار نہیں جب تک چیئرمین نیب خود براہِ راست وارنٹ پر دستخط نہ کر دیں. 14۔ نیب کی اکتوبر 2019ء کو جاری کردہ پالیسی کے مطابق، بیورو کو پہلے ایک سوالنامہ بھجوانا ہوتا ہے اور اُن کے جوابات ملنے پر، اگر یہ جوابات اطمینان بخش نہ ہوں تو، بیورو ایک اور سوالنامہ بھجوائے گا جس کے موصول ہونے کے بعد اگر یہ جوابات بھی اطمینان بخش نہ ہوں تو اُسی صورت اس شخص کو براہِ راست سوالات پوچھنے کیلئے طلب کیا جائے گا۔ میر شکیل کے کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ 15۔ ہر کیس میں نیب چار مراحل کے مطابق عمل کرتا ہے جو یہ ہیں:… اول) شکایت کی تصدیق، دوم) انکوائری، سو انوسٹی گیشن، چہارم ریفرنس دائر کرنا۔ میر شکیل کے کیس میں نیب کو اس قدر جلدبازی تھی کہ اس نے اپنے ہی طے شدہ طریقہ کار کو روند ڈالا جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو شکایت کی تصدیق کے پہلے مرحلے پر کسی انکوائری کے شروع ہونے سے قبل ہی گرفتار کرلیا۔
No comments:
Post a Comment